ہمارى
سوچ كا ہمارے اقوال اور اعمال پر بہت گہرا اثر ہوتا ہے، اور اگر يہ كہا جائے كہ ہمارے اقوال اور ہمارے
اعمال ہمارى سوچ كى عكاسى كرتے ہيں تو كوئى مبالغہ نہيں۔
ايك
دفعہ كوئى شخص گدھا خريد كر لايا اور خوشى سے اسے پہلے دن خوب گھوماتا پھراتا رہا
اور خوب كھلايا پلايا، پھر جب اپنے گھر كے پاس اسے باندھنے لگا تو خيال آيا كہ رسى
ہى نہيں، كچھ دير سوچ بچار كے بعد پڑوسى كے پاس گيااور اسے پہلے تو اپنا گدھا
دكھايا پھر اپنى مشكل بتائى۔
پڑوسى
بڑا سيانا تھا كہنے لگا:“رسى تو ميرے پاس بھى نہيں”۔ پھر كہا: “ ايك كام كرو، تم گدھے كو ايسے محسوس
كراؤ جيسے تم اس كے گلے سے رسى كا ايك سرا باندھ رہے ہو اور پھر رسى كى دوسرى طرف
كو درخت سے باندھ رہے ہو”۔
گدھے
كے مالك نے ايسا ہى كيا، اور پھر دور كھڑا ہو كر ديكھنے لگا، واقعى گدھا ايسے ہى
كر رہا تھا كہ گويا اسے باندھ ديا گيا ہو، پھر اگلى صبح مالك فورا گدھے كو ديكھنے
آيا تو گدھا اسى جگہ تھا جہاں گزشتہ شام اس نے اسے درخت كے ساتھ باندھنے كاڈرامہ
كيا تھا۔
كچھ
دير بعد مالك نے چاہا كہ وہ گدھے كو اپنے ساتھ كام پر لے جائے، مگر گدھا تھا كہ ٹس
سے مَس نہ ہوا، گدھے كا مالك پھر بھاگا بھاگا پڑوسى كے پاس گيا اور پھر اس نئى
پريشانى كے بارے ميں بتايا، پڑوسى نے كہا: آپ نے گدھا كھولا؟
گدھے
كا مالك: نہيں، كيونكہ ميں نے كيا اسے حقيقت ميں باندھا تھا؟
پڑوسى:
جيسے باندھنے كا ڈرامہ كيا تھا ويسے ہى اب كھولنے كا بھى كرو، گدھے كو كيا معلوم
كہ تم نے اس سے ڈرامہ كيا ہے يا حقيقت ميں باندھا ہے؟!
اور
پھر ايسا ہى كرنے سے ہى گدھے كا ملك كچھ دير كے بعد اپنے گدھے كے ساتھ كام پر جا
رہا تھا۔
ہمارے
معاشرے ميں بھى شايد بہت سے لوگوں كو دوسروں نے تخيلاتى طور پر باندھ ديا ہے، اور وہ اس وقت
تك كچھ كرنے كيلئے تيار نہيں جب تك كوئى انہيں رسى سے آزاد نہ كر دے چاہے تخيلاتى
طور پر ہى كيوں نہ ہو، اور شايد وہ بندھے ہى رہنا چاہتے ہيں۔
Comments
Post a Comment