ہم ايك ايسے ملك كے باشندے ہيں جہاں پر 75 سال گزر جانے كے بعد بھى اس كى تاريخ كا سب سے بڑا سيلاب آيا، اور اربابِ اختيار منتظر تھے كہ ہميں كوئى امداد دے دے۔
يہي حالت تقريباً اس ملك ميں رہنے والے اس شخص كى بھى ہے جس كى عمر 75 سال ہے، جس نے اپنى زندگى كے تمام نشيب وفراز اسى ملك ميں رہ كر ديكھے اور اس كى آنكھوں كى بھوك ہے كہ ختم ہونے كا نام نہيں ليتى، سچ فرمايا پيارے نبي محمد مصطفى صلى الله عليه وسلم نے: آدم كى اولاد كا پيٹ مٹى ہى بھر سكتى ہے، اس كے پاس اگر ايك احد كے پہار كے برابر سونا ہو تو تمنا كرے گا كہ ايك اور ہو۔
جس
شخص كى عمر 25 يا 35 سال ہے، اسے بھى اس پيارے وطن عزيز سے بہت شكايات ہيں، ليكن
كبھى اس سے كوئى يہ بھى پوچھ لے كہ آخر آپ نے اس ملك كو كيا ديا؟! تو شايد جواب
صفر ہى ملے۔
خير
اس بے چارى عوام كا بھى كوئى قصور نہيں، جب انھيں كسى نے سيدھى راہ پر لگايا ہى
نہيں، آج كا ايك نوجوان دين اسلام كو سمجھنا چاہتا ہے، اسے كوئى كيا بتائے كہ وہ
كيا كرے؟ كيا پڑھے؟ كس سے پڑهے؟ اس ملك كے باشندوں كى بدقسمتى يہ ہے كہ يہ اپنے
جذبات پر قابو نہيں ركھ سكتے، كوئى انہيں ”جہاد” كا نعرہ اور ”شريعت اسلام كے
نفاذ” كا چورن دے گيا، تو كوئى انہيں سالوں يہ بتاتا رہا كہ ہمارے ساتھ جہاد كرو،
بس فتح قريب ہى ہے، پھر فلاں اداكارہ، فلاں صنعتكار، فلاں اور فلاں.... كوئى ہمارى
باندى ہوگى تو كسى كا مال مالِ غنيمت بنا كر ہم ميں خليفہٴ وقت ہم ميں تسليم كر
ليں گے، شايد تم بھى امير بنا ديے جاؤ، تم بھى فلاں علاقے كے گورنر لگا ديے جاؤ،
جن كى خاطر بيس سے چاليس سال لڑ جھگر كر اس وطن عزيز كى نسل كو بھينٹ چڑھا ديا آخر
كچھ نہ ہاتھ نہ آيا، سب دعوے محض شيخ چلى كے خواب ميں چھيچھڑے ہى رہے۔
كاش
كہ ہم نے دستور جو اس ملك كے باشندوں كو تقريبًا چھبيس سال بعد 1973 ميں ديا گيا
اس كے تعليمي پہلوؤں پر عمل كر ليا گيا ہوتا تو آج كا نوجوان، اس ملك كا مستقبل يہ
نہ پوچھ رہا ہوتا كہ وہ دين اسلام كى بنيادوں كو سمجھنا چاہتا ہے، اسے كيا كرنا
چاہيئے؟
قرآن
كريم كا بھى ترجمہ كيا ہو سكتا ہے؟ جب آج كے دور ميں انگريزى، فارسى، تركى اور اب
چينى زبان سيكھنے كا بھى رواج بڑھ رہا ہے تو آخر اردو اور عربى سےدورى كيوں؟
آج
كے دور ميں جب ہر چوراہے ميں ہميں تنقيدى اعتبار سے زمانے كے ارسطو دستياب ہيں تو
آخر عربى سيكھنے ميں حرج ہى كيا ہے؟ اور ہمارى وہ نام نہاد مذہى حلقے جو اپنے آپ
كو ہى بہترين سمجھتے ہيں وہ مخلوق كو خالق سے كيوں نہيں ملاتے؟!
خود
ہى بتائيے،
وَبِالْحَقِّ أَنْزَلْنَاهُ
وَبِالْحَقِّ نَزَلَ
كا
اردو ترجمہ كيسے ہو سكتا ہے؟! يہ رب كائنات كے كلام كا چناؤ، ان كى صوتي
چاشنى كہاں سے آئے گى،
فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا
تُكَذِّبَانِ
كو
پڑھو بار بار، ان خوبصورت الفاظ كے معانى كو كوئى انسان كسى زبان ميں ترجمہ نہيں
كر سكتا، ہم بحيثيت قوم غفلت ميں ہيں اس چرواہے كى طرح جو ايك دفعہ پرانے زمانے
ميں كشتى ميں سفر كر رہا تھا، جس ميں ايك تاجر بھى تها، كشتى ميں چرواہے كے ساتھ
اس كا بھيڑوں كا ريوڑ تھا جسے اس نے كسى اور شہر لے جا كر بيچنا تھا، راستے ميں
تاجر اور چرواہا خوش گپيوں ميں لگے رہے پھر كسى بات پر تكرار ہو گئى، تاجر نے
چرواہے كى سادگى كو بھانپ ليا تھا اس لئے تاجر نے ايك بھيڑ دگنى چگنى قيمت ميں
خريد لى، چرواہا بہت خوش ہوا مگر تاجر نے خريدى ہوئى بھيڑ كو سينگوں سے پكڑ كے
سمندر كى بے رحم موجوں كے حوالے كر ديا۔
تاجر
كى بھيڑ سمندر ميں چيخنے چلانے لگى، اس كو ديكھا ديكھى سب بھيڑيں ايك كے بعد ايك
سمندر ميں خود ہى "بے بے بے"كرتى ہوئى سمندر ميں كودنے لگيں، چرواہے نے
بہت كوشش كى كہ ريوڑ كو بچائے مگر آخرى بھيڑ كے ساتھ چرواہا بھى سمندر كى بے رحم
موجوں كى نظر ہو گيا، فرانسيسى زبان كا يہ قصہ اس مثال كے ساتھ مشھور ہو گيا كہوروينج
كى بھيڑ نہ بنو، روينچ غالباً تاجر كا نام تھا۔
اس
ملك كے باشندے ميں بھيڑيں ہيں، عاشق رسول مگر رسول كو كبھى پڑها ہى نہيں، اس كى
زبان كو كبھى سيكھنے كى كوشش نہيں كى، كيونكہ ہميں يہى بتايا گيا ہے كہ عربى زبان
بہت مشكل ہے!
ليكن
قرآن نے بتايا: وَلَا تَقْرَبُوْا الزِّنَا
زنا
كے قريب بھى مت جاؤ۔
مگر
ہميں كوئى پرواہ نہيں إلا ما شاء الله، اور ہم ميں ايسے علامے بھى موجود ہيں جنہوں
نے زنا كى نت نئى تعريفيں كرنا شروع كر ديں۔
رب
نے كہا:
قُلْ لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِيْنَ
يُدْنِيْنَ عَلَيْهْنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَّ، ذَلِكَ أَدْنَى أَنْ يُعْرَفْنَ فَلَا
يُؤْذَيْنَ..
اے
نبي (صلى الله عليه وسلم) كہہ ديجئے، اپنى بيويوں، بيٹيوں، اور مؤمنوں كى عورتوں
سے كہ اپنے جلباب ڈال ليں، يہ ان كے لئے بہتر ہے كہ پہجان لي جائيں اور تكليف نہ
دى جائيں۔
اب
حالت ديكھ ليں، پردے كو آڑ ہى بنا ليا،
تھے
تو وہ آبا تمہارے ہى مگر تم كيا ہو
ہاتھ
پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو
اور
كيا ہى خوب فرمايا:
وضع
ميں تم ہو نصارى تو تمدن ميں ہنود
يہ
مسلماں ہيں جنہيں ديكھ كے شرمائيں يہود
ہمارا پيارا رب اللہ ٍهى ہم سب كے حال پر رحم فرمائے، ورنہ ہم تو وہ قوم ہيں جن كے پاس بسنت منانے كے پيسے ہيں مگر كسى مستحق كو كھانا كھلانے كے نہيں، ہم وہ قوم ہيں جو سال ميں شايد فاسٹ فوڈ ہزاروں روپے كى كھا ليں گے مگر كتاب سے دوستى ممكن ہى نہيں ليكن ہميں پھر بھى فخر ہے كہ ہم قوم ہيں جسے رب نے كہا ”اقْرَأ”۔ ہم ہزاروں روپے لگا كے اپنى بے جا خواہشات كو پورا كر ليں گے مگر كسى مستحق كى تعليم پر خرچ نہيں كريں گے۔
Comments
Post a Comment