Skip to main content

Teaching Arabic Language - Simplest Way for Every one

Arabic Language ruled the world for many years during the Golden Times of the Mankind. It is still the Language of Big Muslim Community all around the world. As Fact of the matter Islam is growing as the second largest religion of  mankind today in the world at one side, Arabic Language seems necessary to understands the Islam on the other side too. No doubt, Arabic Language (the standard Arabic Language/ اللغة العربية الفصحى) became more popular among the mankind. Relation of Arabic Language for understanding the Holy Quran is so necessary as Allah SWT said: 
ولقد يسرنا القرآن للذكر فهل من مدكر 
Indeed, we make the Holy Quran easier for remembrance, Is there any one who will receive admonition 

This is admired by majority of scholars in all times that no language on the globe is so vast to explain the meaning of the Holy Quran as it is in Arabic. So, for better understanding what ever the mother tongue is... Arabic is easier to learn... for reasons....

Allah is the Creator of every thing and he sent the Quran his last message to all mankind for all times and for every where. Learning Arabic in last century became a specific interest for majority of people due to many solid reasons. one the most important reason is may be influence of people to understand the Islam. 

There could be many ways to understand the Holy Quran, although understanding of the Holy Quran through learning Arabic Language by all its linguist skills became so popular around the world in our times (21st century). DSM is Direct Speaking Method of Learning Arabic Language which enable its learners to be skilled in Arabic Language and become well aware of understanding the Holy Quran. DSM is one of the Simplest way of Teaching Arabic which equip its learners to be familiar with Arabic in a small span of time.

May Allah guide us to the righteous way.... Ameen

Comments

Popular posts from this blog

ہمارى سوچ اور ہم۔

ہمارى سوچ كا ہمارے اقوال اور اعمال پر بہت گہرا اثر ہوتا ہے،  اور اگر يہ كہا جائے كہ ہمارے اقوال اور ہمارے اعمال ہمارى سوچ كى عكاسى كرتے ہيں تو كوئى مبالغہ نہيں۔ ايك دفعہ كوئى شخص گدھا خريد كر لايا اور خوشى سے اسے پہلے دن خوب گھوماتا پھراتا رہا اور خوب كھلايا پلايا، پھر جب اپنے گھر كے پاس اسے باندھنے لگا تو خيال آيا كہ رسى ہى نہيں، كچھ دير سوچ بچار كے بعد پڑوسى كے پاس گيااور اسے پہلے تو اپنا گدھا دكھايا پھر اپنى مشكل بتائى۔ پڑوسى بڑا سيانا تھا كہنے لگا:“رسى تو ميرے پاس بھى نہيں”۔  پھر كہا: “ ايك كام كرو، تم گدھے كو ايسے محسوس كراؤ جيسے تم اس كے گلے سے رسى كا ايك سرا باندھ رہے ہو اور پھر رسى كى دوسرى طرف كو درخت سے باندھ رہے ہو”۔ گدھے كے مالك نے ايسا ہى كيا، اور پھر دور كھڑا ہو كر ديكھنے لگا، واقعى گدھا ايسے ہى كر رہا تھا كہ گويا اسے باندھ ديا گيا ہو، پھر اگلى صبح مالك فورا گدھے كو ديكھنے آيا تو گدھا اسى جگہ تھا جہاں گزشتہ شام اس نے اسے درخت كے ساتھ باندھنے كاڈرامہ كيا تھا۔ كچھ دير بعد مالك نے چاہا كہ وہ گدھے كو اپنے ساتھ كام پر لے جائے، مگر گدھا تھا كہ ٹس سے مَس نہ ہوا، گدھے كا

ہم اور روينج كى بھيڑ

ہم ايك ايسے ملك كے باشندے ہيں جہاں پر 75 سال گزر جانے كے بعد بھى اس كى تاريخ كا سب سے بڑا سيلاب آيا، اور اربابِ اختيار منتظر تھے كہ ہميں كوئى امداد دے دے۔   يہي حالت تقريباً اس ملك ميں رہنے والے اس شخص كى بھى ہے جس كى عمر 75 سال ہے، جس نے اپنى زندگى كے تمام نشيب وفراز اسى ملك ميں رہ كر ديكھے اور اس كى آنكھوں كى بھوك ہے كہ ختم ہونے كا نام نہيں ليتى، سچ فرمايا پيارے نبي محمد مصطفى صلى الله عليه وسلم نے: آدم كى اولاد كا پيٹ مٹى ہى بھر سكتى ہے، اس كے پاس اگر ايك احد كے پہار كے برابر سونا ہو تو تمنا كرے گا كہ ايك اور ہو۔   جس شخص كى عمر 25 يا 35 سال ہے، اسے بھى اس پيارے وطن عزيز سے بہت شكايات ہيں، ليكن كبھى اس سے كوئى يہ بھى پوچھ لے كہ آخر آپ نے اس ملك كو كيا ديا؟! تو شايد جواب صفر ہى ملے۔   خير اس بے چارى عوام كا بھى كوئى قصور نہيں، جب انھيں كسى نے سيدھى راہ پر لگايا ہى نہيں، آج كا ايك نوجوان دين اسلام كو سمجھنا چاہتا ہے، اسے كوئى كيا بتائے كہ وہ كيا كرے؟ كيا پڑھے؟ كس سے پڑهے؟ اس ملك كے باشندوں كى بدقسمتى يہ ہے كہ يہ اپنے جذبات پر قابو نہيں ركھ سكتے، كوئى انہيں ”جہاد” كا نعرہ اور ”شريع

تمہارى جگہ نيچے تھى اور ميں تمہيں اوپر لے گيا

  پرانے زمانے كى بات ہے كہتے ہيں كہ كسى بندے نے زندگى ميں پہلى بار ايك گدھا خريدا ، اس خريدارى كے بعد وہ بہت خوش تھا، گدھے كو وہ خوشى خوشى گھر لے گيا، گھر ميں بيوى بچوں سے تعارف كروايا اور پھر بھى خوشى سے نہ سمايا اور آخر گدھے كو لے كر اپنے كچے مكان كى چھت پر سيڑھيوں سے چڑھا كر لے گيا۔ چھت پر سے اس نے گدھے كو پورے قصبے كے رستے اور گلياں دكھلائے، اور اپنے خوابوں كى تكميل بتانے لگا، وہ گدام ہے وہاں سے ہم سامان اٹھائيں گے اور وہ فلاں بازار ہے وہاں پر ديكھو فلاں كى دكان ہے وہاں سامان اتاريں گے، اور وہاں سے ميں تمہارا كھانا خريدوں گا وہاں پر جائيں گے وہاں تمہيں تازى گھاس ملے گى وغيرہ وغيرہ۔۔۔ كافي دير بات چيت كرنے كے بعد اب گدھے كے مالك نے چاہا كہ وہ اسے نيچے لے جائے مگر گدھے كو تو وہ جگہ پسند آگئى تھى، اب گدھے نے پكا   ارادہ كر ليا كہ وہ اب نيچے نہيں اترے گا۔ آدمى نے بہت كوشش كى مگر   بے سود،   آخر اس كى ٹانگوں سے پكڑ كر نيچے اتارنے كى كوشش كرنے لگا۔ گدھے كو بھى غصہ آيا اور اس نے چھت پر زور زور سے چھلانگيں مارنا شروع كر ديں، بندہ فوراً نيچے بھاگا تاكہ اپنى بيوى بچوں كو “كچے مكان” سے فو