Skip to main content

Posts

أم غير المتصلة

 أمّ دون جوّال الغير متصلة بالإنترنت.  حدث مُثير لافت الانتباه. بعدَ التحدُّث إلى طلّاب الصف الخامس، طلب منهم المعلّم كتابة مقال حول كيف «أمُّ أحلامي» ؟ كم أعجبَ الجميع أمُّهم وكتبوا مقالات عنها، لكن أحد الأطفال كتبَ في عنوان المقال: «أمّي الغير متصلة بالإنترنت» أريد «أمّي»، لكنّي أريدها غير متصلة بالإنترنت، أريد أمًّا الغير متعلمة، لا تستخدم «الجوال»، لكنَّها مُستعدة للذَّهاب إلى أيّ مكان معي. أريد أمًّا تحتضنُني مثل الطفل. أريد «أمّي»، ولكن «الغير متّصل بالإنترنت». يجب أن يكون لديها وقت أكثر لعائلتها «أنا وبابا» مِن جوّال. إذا كان هناك «أمّ» الغير متصلة بالإنترنت، فلن يكون هناك خلافٌ مع بابا، عندما أذهب إلى الفراش ليلاً، ستحكي لي قصَّةً بدلاً مِن تقديم فرصة لعِب الألعاب الفيديو. أمّي، لا تطلبي البيتزا عبر الإنترنت، اصنعي أيَّ شيء في المنزل؛ أنا وأبي سنَستمتِع بالأكل أريد فقط «أمّي» الغير متصلة بالإنترنت. بعد القراءة كثيرًا ما تمناه أحد الطلاب، سمعَ الفصل بأكملِه صوتَ بكاء رائد الفصل، وكانت الدموع في أعين كل من طلاب ومعلم في الفصل. أمَّي، كوني امرأة مثقفة، وإن كنت جامعية، وصاحبة أعمال
Recent posts

گدھا ابن گدھا۔

 شاعر احمد مطر کی تحریر كا  اردو ترجمہ* جنہوں نے گدھے کے بیٹے کی بہت خوبصورت کہانی  تحرير كى۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ عرب کے كسى اصطبل میں گدھے رہتے تھے، ایک دن ایک گدھا كافي لمبے عرصے سے بھوک ہڑتال پر چلا گیا، اس کا جسم کمزور ہو گیا، اس کے کان جھک گئے اور اس کا جسم تقریباً کمزوری سے زمین پر گر گیا، باپ گدھے کو احساس ہوا کہ اس کے بیٹے کی حالت روز بروز بگڑ رہی ہے، وہ چاہتا تھا کہ وہ اس کی وجہ سمجھے۔ وہ اکیلے ميں اس کے پاس اس کی تیزی سے بگڑتی ہوئی ذہنی اور صحت کی حالت کا جائزہ لینے آیا تھا۔ اس نے اس سے کہا: بیٹا تمہیں کیا ہوا ہے؟ میں تمہارے لیے بہترین قسم کے جو لایا ہوں اور تم پھر بھی کھانے سے انکاری ہو... بتاؤ تمہیں کیا ہوا ہے؟ تم اپنے ساتھ ایسا کیوں کرتے ہو؟ کیا کسی نے آپ کو پریشان کیا؟ گدھے کے بیٹے نے سر اٹھایا اور باپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ہاں ابا.. وہ انسان ہیں.. گدھے کا باپ حیران ہوا اور اپنے بیٹے سے کہا: انسانوں کا کیا قصور ہے بیٹا؟ اس نے اس سے کہا: وہ گدھوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔ باپ نے کہا: وہ کیسے؟ بیٹے نے کہا: کیا آپ نے ديكھا نہيں کہ جب بھی کوئی ذلیل کام کرتا ہے تو اسے کہتے ہیں کہ

ہمارى سوچ اور ہم۔

ہمارى سوچ كا ہمارے اقوال اور اعمال پر بہت گہرا اثر ہوتا ہے،  اور اگر يہ كہا جائے كہ ہمارے اقوال اور ہمارے اعمال ہمارى سوچ كى عكاسى كرتے ہيں تو كوئى مبالغہ نہيں۔ ايك دفعہ كوئى شخص گدھا خريد كر لايا اور خوشى سے اسے پہلے دن خوب گھوماتا پھراتا رہا اور خوب كھلايا پلايا، پھر جب اپنے گھر كے پاس اسے باندھنے لگا تو خيال آيا كہ رسى ہى نہيں، كچھ دير سوچ بچار كے بعد پڑوسى كے پاس گيااور اسے پہلے تو اپنا گدھا دكھايا پھر اپنى مشكل بتائى۔ پڑوسى بڑا سيانا تھا كہنے لگا:“رسى تو ميرے پاس بھى نہيں”۔  پھر كہا: “ ايك كام كرو، تم گدھے كو ايسے محسوس كراؤ جيسے تم اس كے گلے سے رسى كا ايك سرا باندھ رہے ہو اور پھر رسى كى دوسرى طرف كو درخت سے باندھ رہے ہو”۔ گدھے كے مالك نے ايسا ہى كيا، اور پھر دور كھڑا ہو كر ديكھنے لگا، واقعى گدھا ايسے ہى كر رہا تھا كہ گويا اسے باندھ ديا گيا ہو، پھر اگلى صبح مالك فورا گدھے كو ديكھنے آيا تو گدھا اسى جگہ تھا جہاں گزشتہ شام اس نے اسے درخت كے ساتھ باندھنے كاڈرامہ كيا تھا۔ كچھ دير بعد مالك نے چاہا كہ وہ گدھے كو اپنے ساتھ كام پر لے جائے، مگر گدھا تھا كہ ٹس سے مَس نہ ہوا، گدھے كا

تمہارى جگہ نيچے تھى اور ميں تمہيں اوپر لے گيا

  پرانے زمانے كى بات ہے كہتے ہيں كہ كسى بندے نے زندگى ميں پہلى بار ايك گدھا خريدا ، اس خريدارى كے بعد وہ بہت خوش تھا، گدھے كو وہ خوشى خوشى گھر لے گيا، گھر ميں بيوى بچوں سے تعارف كروايا اور پھر بھى خوشى سے نہ سمايا اور آخر گدھے كو لے كر اپنے كچے مكان كى چھت پر سيڑھيوں سے چڑھا كر لے گيا۔ چھت پر سے اس نے گدھے كو پورے قصبے كے رستے اور گلياں دكھلائے، اور اپنے خوابوں كى تكميل بتانے لگا، وہ گدام ہے وہاں سے ہم سامان اٹھائيں گے اور وہ فلاں بازار ہے وہاں پر ديكھو فلاں كى دكان ہے وہاں سامان اتاريں گے، اور وہاں سے ميں تمہارا كھانا خريدوں گا وہاں پر جائيں گے وہاں تمہيں تازى گھاس ملے گى وغيرہ وغيرہ۔۔۔ كافي دير بات چيت كرنے كے بعد اب گدھے كے مالك نے چاہا كہ وہ اسے نيچے لے جائے مگر گدھے كو تو وہ جگہ پسند آگئى تھى، اب گدھے نے پكا   ارادہ كر ليا كہ وہ اب نيچے نہيں اترے گا۔ آدمى نے بہت كوشش كى مگر   بے سود،   آخر اس كى ٹانگوں سے پكڑ كر نيچے اتارنے كى كوشش كرنے لگا۔ گدھے كو بھى غصہ آيا اور اس نے چھت پر زور زور سے چھلانگيں مارنا شروع كر ديں، بندہ فوراً نيچے بھاگا تاكہ اپنى بيوى بچوں كو “كچے مكان” سے فو

ہم اور روينج كى بھيڑ

ہم ايك ايسے ملك كے باشندے ہيں جہاں پر 75 سال گزر جانے كے بعد بھى اس كى تاريخ كا سب سے بڑا سيلاب آيا، اور اربابِ اختيار منتظر تھے كہ ہميں كوئى امداد دے دے۔   يہي حالت تقريباً اس ملك ميں رہنے والے اس شخص كى بھى ہے جس كى عمر 75 سال ہے، جس نے اپنى زندگى كے تمام نشيب وفراز اسى ملك ميں رہ كر ديكھے اور اس كى آنكھوں كى بھوك ہے كہ ختم ہونے كا نام نہيں ليتى، سچ فرمايا پيارے نبي محمد مصطفى صلى الله عليه وسلم نے: آدم كى اولاد كا پيٹ مٹى ہى بھر سكتى ہے، اس كے پاس اگر ايك احد كے پہار كے برابر سونا ہو تو تمنا كرے گا كہ ايك اور ہو۔   جس شخص كى عمر 25 يا 35 سال ہے، اسے بھى اس پيارے وطن عزيز سے بہت شكايات ہيں، ليكن كبھى اس سے كوئى يہ بھى پوچھ لے كہ آخر آپ نے اس ملك كو كيا ديا؟! تو شايد جواب صفر ہى ملے۔   خير اس بے چارى عوام كا بھى كوئى قصور نہيں، جب انھيں كسى نے سيدھى راہ پر لگايا ہى نہيں، آج كا ايك نوجوان دين اسلام كو سمجھنا چاہتا ہے، اسے كوئى كيا بتائے كہ وہ كيا كرے؟ كيا پڑھے؟ كس سے پڑهے؟ اس ملك كے باشندوں كى بدقسمتى يہ ہے كہ يہ اپنے جذبات پر قابو نہيں ركھ سكتے، كوئى انہيں ”جہاد” كا نعرہ اور ”شريع

Surah Al Muzzamil